فلک سے چاندنی پھر جھانکتی ہے
فلک سے چاندنی پھر جھانکتی ہے
زمیں پر تیرگی جب ناچتی ہے
ستارا جب بھی ٹوٹا آسماں سے
وہی خواہش دوبارا جاگتی ہے
بنا لیتی ہے زنجیروں سے پائل
محبت رقص کرنا جانتی ہے
پتہ ہے کہ وہاں پانی نہیں ہے
مگر امید صحرا چھانتی ہے
قضا پوری ہو کرنی پھر کسی کی
زمیں محور پہ ایسے بھاگتی ہے
میں راز زندگی کیونکر بتاؤں
کہاں یہ نسل کہنا مانتی ہے