قبر پر حاضری کے آداب کیا ہیں؟

اسلام کی محبت نے مسلمانوں کو ایک جان دو قالب کی طرح متحد اور جوڑ رکھا ہے۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا ہے۔ مواخاتِ مدینہ اس بھائی چارے کی عملی گواہی ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر پانچ حقوق ہیں:
1۔ سلام کا جواب دینا
2۔ بیمار کی عیادت کرنا
3۔ جنازوں کے ساتھ جانا
4۔ دعوت قبول کرنا
5۔ چھینک کا جواب دینا
(صحیح، متفق علیہ)
ان حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کہ جب مسلمانوں میں سے کوئی بقضائے الٰہی سے انتقال کرجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ جنازہ دراصل مرنے والے کے لیے اجتماعی طور پر دعائے مغفرت اور اس کی تعظیم کا ایک طریقہ ہے۔ جنازے کے بعد مسلمان کی میت کو احترام کے ساتھ قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔ قبر کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت کرنا مُردوں کا حق ہے۔ رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں کی قبر پر جانے کی اجازت دی اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی تلقین بھی فرمائی۔
ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا تو اب(حضرت سیدنا) محمد ﷺ کو اجازت دے دی گئی ہے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی، لہٰذا تم بھی قبروں کی زیارت کرو بے شک وہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔"
( ترمذی،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الرخصة فی زیارة القبور،۲ / ۳۳۰،حدیث:۱۰۵۶)
ہمیں یادِ آخرت اور عبرت حاصل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً قبرستان جانا چاہیے۔ قبر پر جا کر صاحبِ قبر کے لیے دعائے مغفرت کرنا مستحب عمل ہے۔تاہم زیارتِ قبر یا مزارِ اولیا پر حاضری کے وقت آداب اور احتیاط کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ چند آداب پیش خدمت ہیں:
زیارتِ قبور کے آداب سے متعلق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’قبورِ اولیاء کی زیارات کے آداب میں سے ہے:
1۔زائر قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی جانب پیٹھ کر کے صاحبِ قبر کے منہ کے برابر کھڑا ہو جائے
2۔اُسے سلام کہے،
3۔ہاتھ سے قبر کو نہ چھوئے اور نہ قبر کو بوسہ دے
4۔ اور نہ قبر کے سامنے جھکے اور قبر کے سامنے مٹی پر اپنا منہ نہ ملے کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے۔
5۔قبر کے پاس قرآن حکیم کی تلاوت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک (بآوازِ بلند) مکروہ ہے، مگر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ علمائے احناف میں سے صدر الشہید نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو اختیار کیا ہے اور اِسی پر فتویٰ ہے۔ شیخ امام محمد بن الفضل نے کہا ہے کہ قبر کے نزدیک اُونچی آواز میں قرآن خوانی مکروہ ہے، لیکن اگر دھیمی آواز میں ہو تو سارا قرآن مجید پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘
(شاه عبدالحق، اشعة اللمعات، باب زيارة القبور : 763)