ذہن پر چھا گئی موت کی بے حسی نیند آنے لگی

ذہن پر چھا گئی موت کی بے حسی نیند آنے لگی
ڈھونڈھتا ہوں اندھیروں میں آسودگی نیند آنے لگی


بھاگتے بھاگتے موت کے سائے سے خود ہی دھندلا گئے
سوچتے سوچتے زندگی زندگی نیند آنے لگی


ہیں اسی عہد میں سو تصور حسیں کوئی اپنا نہیں
تھک گئی ہے مرے شوق کی سادگی نیند آنے لگی


ختم ہیں روز و شب کی پریشانیاں اور حیرانیاں
تھی وہ کیا شے جو اب تک نہیں مل سکی نیند آنے لگی


حیرت انگیز رنگوں میں لپٹی ہوئی مضطرب نغمگی
آج تک اپنی لے میں نہیں ڈھل سکی نیند آنے لگی


حوصلوں کا ہی انجام ہیں تجربے بس بھرے
آشتی آشتی آشتی آشتی نیند آنے لگی


کیا ملا نغم و رنگ کے شوق سے شعر کے ذوق سے
اک چبھن اک دکھن ایک واماندگی نیند آنے لگی