میری صورت کو دیکھو کچھ نہ پوچھو ماجرا میرا

میری صورت کو دیکھو کچھ نہ پوچھو ماجرا میرا
کہ جو گزری ہے مجھ پر خوب واقف ہے خدا میرا


نشان پا سے چلتا ہے پتا تلووں کے چھالوں کا
جما ہے دشت میں بھی دور تک نقش وفا میرا


قفس میں ایک بیمار محبت جان دیتا ہے
چمن والوں سے یہ پیغام کہہ دینا صبا میرا


میری ناکامیٔ امید بھی ہے رحم کے قابل
میں وہ مایوس ہوں اٹھتا نہیں دست دعا میرا


مجھی پر آج پڑتی ہیں نگاہیں اہل محفل کی
تمہاری بزم میں ایسا جما رنگ وفا میرا


دل بیتاب سینے میں تڑپ کر ان سے کہتا ہے
تمہاری حسرتیں روکے ہوئے ہیں راستہ میرا


بلا سے پھر نہ آنہ آج کہہ دو کل ہم آئیں گے
اسی میں خیریت ہے تم نہ توڑو آسرا میرا


دم آخر جو آئے ہیں تو مرنے بھی نہیں دیتے
مجھے وہ یاد دلواتے ہیں پیمان وفا میرا


اسے کہنا خدا سے کچھ نہ کچھ کہنا حسینوں سے
مزے کی چیز ہے صفدرؔ دل بے مدعا میرا