ذرا سی بات پہ اکثر اکیلا چھوڑ جاتی ہے

ذرا سی بات پہ اکثر اکیلا چھوڑ جاتی ہے
ہنسی ہونٹوں پہ میرا زخم گہرا چھوڑ جاتی ہے


اگر ہو فیصلہ قدرت کا تو مجبور ہوتی ہے
وگرنہ کون ماں بچوں کو تنہا چھوڑ جاتی ہے


کبھی وعدے کبھی یادیں کبھی آنسو کبھی آہیں
تو جب جاتی ہے میرے پاس کیا کیا چھوڑ جاتی ہے


میں اپنے گھر سے نکلا ہوں دعائیں ماں تری لے کر
جو مشکل سامنے آتی ہے رستہ چھوڑ جاتی ہے


یہاں پر کون کس کا ہم سفر رہتا ہے آخر تک
جو کشتی پار لگتی ہے تو دریا چھوڑ جاتی ہے


باہر اس کی محبت کی درخت دل کی شاخوں پر
ثمرؔ اک خوب صورت اور میٹھا چھوڑ جاتی ہے