شکستہ دل تہی دامن بہ چشم تر گیا آخر
شکستہ دل تہی دامن بہ چشم تر گیا آخر
صنم مل کر ہمیں پھر آج تنہا کر گیا آخر
غریب شہر تھا خاموش رہنے کی سزا پائی
وفا کرنے پہ بھی الزام اس کے سر گیا آخر
بڑھا کر ہاتھ الفت کا سدا کی بیکلی دے دی
تمہاری چاہ کر کے ایک شاعر مر گیا آخر
یہ طے تھا ہم انا کے فیصلے سے منہ نہ موڑیں گے
رہی دستار قائم تن سے لیکن سر گیا آخر
فنا کے ہاتھ اپنی زندگی کو چھو نہ سکتے تھے
مگر مالک تری دنیا سے یہ دل بھر گیا آخر
تھکن سے چور تھا اس کا بدن اور آنکھ بوجھل تھی
وہ شب بھر گھر سے باہر تھا پلٹ کر گھر گیا آخر
وہ جس کی جستجو میں ہم نے اپنی زندگی کھو دی
وہی تو آج حسرتؔ ہم پہ تہمت دھر گیا آخر