زمیں سے اونچا حد آسمان پر رکھ دے

زمیں سے اونچا حد آسمان پر رکھ دے
شعور ذات کو اونچے نشان پر رکھ دے


بلندیاں جسے چاہیں تو ایسا شاہیں ہے
ہوا نہ دیکھ پروں کو اڑان پر رکھ دے


میں تیرا امن ہوں ترکش میں قید ہوں کب سے
کبھی مجھے بھی اٹھا کر کمان پر رکھ دے


کڑی سی دھوپ میں احساس ہی نہ کھو جائے
کوئی بھی ذائقہ میری زبان پر رکھ دے


تو اپنے خون کا ان ظالموں کی بستی سے
صلہ نہ مانگ لہو کو چٹان پر رکھ دے