انکار کی طلب ہے نہ اقرار کی طلب
انکار کی طلب ہے نہ اقرار کی طلب
دل میں ہے میرے بس ترے دیدار کی طلب
ہوتی ہے جیسے صبح کو اخبار کی طلب
ہونے لگی ہے پھر کسی دل دار کی طلب
خواہش کہ ہو سکون مری زندگی کے ساتھ
صحرا میں جیسے سایۂ دیوار کی طلب
پرچھائیوں نے ساتھ نہ چھوڑا تمام عمر
شاید اسی کو کہتے ہیں سنسار کی طلب
دزدیدہ نگاہی سے تری جاگ اٹھی ہے
مدت پہ کسی نرگس بیمار کی طلب
جب مانگنے پہ آؤ تو کیا کیا نہ مانگ لو
جاویدؔ آپ کیجئے کردار کی طلب