چاندنی سے بھی جل رہے ہیں لوگ

چاندنی سے بھی جل رہے ہیں لوگ
لمحہ لمحہ پگھل رہے ہیں لوگ


جانے کیا بات ہے کہ مقتل سے
منہ چھپائے نکل رہے ہیں لوگ


کیسے پہچانوں آشناؤں کو
اپنا چہرہ بدل رہے ہیں لوگ


مانگتے ہیں قدم پرانی زمیں
کیسے پانی پہ چل رہے ہیں لوگ


ہم تو برباد ہیں مروت میں
اور سب پھول پھل رہے ہیں لوگ


ہے یہ تسلیم ہم ہیں نظم جدید
میرے پرکھے غزل رہے ہیں لوگ


ہے یہ جاویدؔ آج رسم جہاں
منہ سے شعلے اگل رہے ہیں لوگ