زمانے بھر کی کتابوں میں قید رہتا ہوں
زمانے بھر کی کتابوں میں قید رہتا ہوں
خرد کے کہنہ نصابوں میں قید رہتا ہوں
ترے جمال کے سب بھید جان کر بھی میں
نہ جانے کیوں ترے خوابوں میں قید رہتا ہوں
ترے بدن میں ہیں کتنی قیامتیں پنہاں
بڑے شدید عذابوں میں قید رہتا ہوں
کروں بھی کیسے بھلا دشت آگہی کا سفر
کہ میں یقیں کے سرابوں میں قید رہتا ہوں
وہ تو کہ پیرہن کائنات چاک کرے
وہ میں کہ اتنے حجابوں میں قید رہتا ہوں
ہے موج وقت قفس اور زندگی صیاد
میں لمحہ لمحہ حبابوں میں قید رہتا ہوں
وہ زندگی ہو کہ اقلیم ذات ہو شارقؔ
نہ جانے کیسے خرابوں میں قید رہتا ہوں