اب تو اک عمر ہوئی یاد نہ کر لوں خود کو
اب تو اک عمر ہوئی یاد نہ کر لوں خود کو
ہوں کہیں ذہن میں ایجاد نہ کر لوں خود کو
وہ خرابہ کہ جہاں کوئی نہ ہو میرے سوا
اس خرابے میں ہی آباد نہ کر لوں خود کو
جانے کس لمحۂ پر درد کی یاد آئی ہے
روتے روتے یوں ہی برباد نہ کر لوں خود کو
وہی تنہائی کا عالم وہی صیاد کا خوف
اپنا زنداں ہوں تو آزاد نہ کر لوں خود کو
حشر کے بعد بھی رہنا ہے زمیں پر مجھ کو
میں جہاں زاد زمیں زاد نہ کر لوں خود کو
یہ جو کھینچے لیے جاتا ہے بیاباں کی طرف
دل کو خدشہ ہے کہ آباد نہ کر لوں خود کو
مل ہی جاؤں گا گئے وقت میں اک دن شارقؔ
لوح امکان پہ ایزاد نہ کر لوں خود کو