تیرے حسن و جمال تک پہنچا

تیرے حسن و جمال تک پہنچا
میں بھی کتنے کمال تک پہنچا


بعد مدت کے ذہن آشفتہ
ایک نازک خیال تک پہنچا


اے مرے شوق بے مثال مجھے
آج اس بے مثال تک پہنچا


اک زوال عروج سے ہو کر
میں عروج زوال تک پہنچا


ذہن آزاد ہو گیا میرا
جب یقیں احتمال تک پہنچا


تذکرہ حسن کے تناسب کا
پھر ترے خد و خال تک پہنچا


اک معمہ تھا میرا مستقبل
کتنی مشکل سے حال تک پہنچا


اس طرح میں ترے قریب آیا
جیسے ممکن محال تک پہنچا


یہ ہوس بھی کمال تک پہنچی
وہ بدن بھی کمال تک پہنچا


اک گلہ زندگی کے ہونے کا
ہوتے ہوتے ملال تک پہنچا


اک خلش سی رہی کہیں دل میں
ہجر جب بھی وصال تک پہنچا


تھا ازل سے سوال کے اندر
جو جواب اب سوال تک پہنچا


شارقؔ اس عشق کے وسیلے سے
میں جلال و جمال تک پہنچا