زمانہ دیکھتا ہے ہنس کے چشم خوں فشاں میری

زمانہ دیکھتا ہے ہنس کے چشم خوں فشاں میری
مگر میں خوش ہوں ان کی داستاں ہے اور زباں میری


اکیلا ہوں بھری دنیا میں میں کس کو کہوں اپنا
کوئی ہوتا تو کر دیتا مکمل داستاں میری


گزرتا آ رہا ہوں جانے میں کن کن مقاموں سے
زمیں کے بعد آیا رہ گزر میں آسماں میری


میں یا رب خاک کا پتلا سہی لیکن یہ کیا کم ہے
ہوئی ہے منتخب ہستی برائے امتحاں میری


فنا کی منزلوں پر ختم ہیں راہیں عناصر کی
یہی اب دیکھنا ہے روح جاتی ہے کہاں میری


نہ جانے سلسلہ جاتا کہاں تک جسم خاکی کا
خدا کا شکر ہے حد بن گئے کون و مکاں میری


ذرا اے عزم دل رخ پھیر طوفاں کی ہواؤں کے
سوئے گرداب کشتی لے چلی موج رواں میری


زباں پر لے تو آؤں گا مگر دل تھامنا ہوگا
مجھے معلوم ہے روداد دل ہے لا بیاں میری


کڑک کر بجلیاں رہ جائیں گی چھٹ جائیں گے بادل
رہے گا زندگی بن کر سکون آشیاں میری


فلکؔ میں سر زمین داغؔ و غالبؔ کا ہوں اک ذرہ
وطن ہے شہر دہلی زندگی اردو زباں میری