روشن ہے فضا شمس کوئی ہے نہ قمر ہے

روشن ہے فضا شمس کوئی ہے نہ قمر ہے
شاعر ہوں مجھے عرش معلےٰ کی خبر ہے


دریا میں ہیں گرداب کنارے پہ بگولے
آرام کی صورت نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے


پتے کی کھڑک سے بھی لرزتا ہے مرا دل
سائے سے بھی خطرہ مجھے دوران سفر ہے


اک موج بھی رکھتی ہے کنارے کی تمنا
آوارہ جو پھرتا ہوں یہ میرا ہی جگر ہے


اک طائر محصور اسیری کا مخالف
اڑ سکتا ہے بازو میں اگر ایک بھی پر ہے


موجوں کو پتہ کیا ہے سمندر کو خبر کیا
کس ابر کی شوخی ہے صدف میں جو گہر ہے


کیا اشک کسی ٹوٹتے تارے پہ بہاؤں
خود اپنا ہی انجام فلکؔ پیش نظر ہے