ساقیا یہ جو تجھ کو گھیرے ہیں

ساقیا یہ جو تجھ کو گھیرے ہیں
ان میں کچھ رند کچھ لٹیرے ہیں


اپنی تہذیب کھا رہی ہے ہمیں
سانپ کے منہ میں خود سپیرے ہیں


جس نے بخشے ہیں پھول گلشن کو
اس نے کچھ خار بھی بکھیرے ہیں


کل جو طوفان تھا سمندر میں
اس کے اب ساحلوں پہ ڈیرے ہیں


تیرے بارے میں کچھ نہیں معلوم
ہم اگر ہیں تو صرف تیرے ہیں


ہوش و غفلت میں پاس ہی موجود
مجھ کو وہ ہر طرف سے گھیرے ہیں


تم سے تو کیا نظر ملائیں گے
خود سے بھی ہم نگاہ پھیرے ہیں


درحقیقت وہی عدو ہیں فلکؔ
جن کو کہتا ہے تو کہ میرے ہیں