وحشت ہے بے زاری ہے
وحشت ہے بے زاری ہے
شام بھی کتنی بھاری ہے
باہر اک سناٹا ہے
اندر آہ و زاری ہے
لکھ دیتا ہوں حال دل
کہنے میں دشواری ہے
درد مصیبت بے چینی
اپنی سب سے یاری ہے
سینہ چرتا جاتا ہے
خواہش ہے یا آری ہے
میرے دل کے کمرے میں
یادوں کی الماری ہے
پریم نگر کا ہر بندہ
جذبوں کا بیوپاری ہے
آپ محبت کہتے ہیں
دھوکہ ہے مکاری ہے
سوز ہے میرے لفظوں میں
لہجے میں سرشاری ہے
شعر نہیں لکھتا صاحب
پیہم اشک شماری ہے