زندہ وہ اپنے ساتھ کے بیمار بھی نہیں
زندہ وہ اپنے ساتھ کے بیمار بھی نہیں
مرتے رہو کہ اب کوئی غم خوار بھی نہیں
اکثر خیال زلف سے ٹوٹا سکوت شب
زنجیر اب نہیں ہے تو جھنکار بھی نہیں
ہمسائیگی پہ اس کی بہت ناز ہے ہمیں
دیوار سے لگی ہوئی دیوار بھی نہیں
دامن کا چاک چاک گریباں سے جا ملے
اب عاشقی کا یہ کوئی معیار بھی نہیں
آنکھوں میں آ گیا ہے لہو ہو کے اپنا دل
اس کی طرف سے وعدۂ دیدار بھی نہیں
اس کے کہے سے دے مجھے دوزخ ہی اے خدا
اعمال سے تو ایسا گنہ گار بھی نہیں