دل جسے چاہے وہی چہرہ جبیں لگتا ہے

دل جسے چاہے وہی چہرہ جبیں لگتا ہے
اپنے سینے کا ہر ایک داغ حسیں لگتا ہے


میں کہیں بھی ہوں مگر ہوں اسی محفل کا چراغ
وہ جہاں بھی ہو مرے دل کا مکیں لگتا ہے


دوسری بار نہ میں پہونچا وہاں اور نہ وہ
پھر بھی میلہ ہے کہ ہر سال وہیں لگتا ہے


سرحد غم کے علاقوں میں ادھر ہو کہ ادھر
مجھ کو ہر دشت غزل ہی کی زمیں لگتا ہے