زبون و خوار ہوئی ہے مری جبلت بھی
زبون و خوار ہوئی ہے مری جبلت بھی
مرے نصیب و وراثت میں سے امامت بھی
عجب ہراس میں تھا میرے موسموں سے غنیم
کہ دے رہا تھا اسے بھاگنے کی مہلت بھی
وہ جب بھی آیا کم و بیش مجھ پہ وار گیا
مجھے یہ شوق کہ لاتا کبھی ضرورت بھی
میں اپنے زہر سے واقف ہوں وہ سمجھتا نہیں
ہے میرے کیسۂ صد کام میں شرافت بھی
سمجھ رہے تھے میں تنہا ہوں بے بصیرت لوگ
پس غبار چلی آ رہی تھی خلقت بھی
اگر سلیقے سے کوئی گرفت میں لائے
میں اوڑھ لیتا ہوں اکثر ردائے تہمت بھی
میں نیند میں تھا کہ سرگوشیوں کے رقص میں تھا
ادھر تھی ناقۂ عمر رواں کو عجلت بھی
اے شہسوار مجھے بادشہ بنا کے تو دیکھ
میں کاٹ ڈالوں گا سر رشتۂ بغاوت بھی
اسی نے رکھ دیا مجھ کو سمیٹ کر حقیؔ
وہ جس کے نام سے مجھ کو ملی تھی شہرت بھی