یوں ہی ہے نور وحدت کا دل انساں میں آ جانا
یوں ہی ہے نور وحدت کا دل انساں میں آ جانا
کہ جیسے آنکھ کے تل میں جہاں بھر کا سما جانا
نہ لیتے نام بھی وہ ظلم کا بھولے سے دنیا میں
اگر اتنا سمجھ لیتے کہ ہے پیش خدا جانا
یہ فطرت حسن کی ہے اور وہ طینت محبت کی
جسے تم نے جفا سمجھا اسے ہم نے وفا جانا
بیاں کر دینا حال زار ہم صحرا نشینوں کا
اگر کوچہ میں اس ظالم کے او باد صبا جانا
ملے فرصت اگر تم کو تو بعد مرگ دم بھر کو
برائے فاتحہ بیکس کی تربت پر بھی آ جانا
نہ سمجھی تم نے کچھ ہستی ہماری عشق میں لیکن
تمہیں اپنے سے بھی ہم نے سوا سمجھا سوا جانا
حقیقت میں وہی منزل شناس راہ عرفاں ہے
کہ جس نے اپنی ہر اک سانس کو بانگ درا جانا
سمجھتا کوئی جیتے جی تو ہاں اک بات تھی شعلہؔ
مرے مرنے پہ دنیا نے مجھے جانا تو کیا جانا