نہیں نکلے زباں سے ان کے دھوکے میں جو ہاں ہو کر
نہیں نکلے زباں سے ان کے دھوکے میں جو ہاں ہو کر
گماں بدلے یقیں ہو کر یقیں بدلے گماں ہو کر
کھٹکتا ہوں زمانے کی نظر میں نیم جاں ہو کر
محبت میں ہوا کانٹا ضعیف و ناتواں ہو کر
دیا درس عمل دنیا کو سرگرم فغاں ہو کر
جگایا میرے نالوں نے زمانے کو اذاں ہو کر
چھپائے سے کہیں چھپتا ہے جلوہ حسن فطرت کا
عیاں ہے وہ نہاں ہو کر نہاں ہے وہ عیاں ہو کر
یہ ہے اعجاز الفت آج تک عاشق جو زندہ ہے
وگر نہ مٹ چکا ہوتا وہ بے نام و نشاں ہو کر
بھلا اس طرح کا جینا بھی ہے جینا کوئی شعلہؔ
نگاہوں میں سبک ہو کر زمانے پر گراں ہو کر