یوں ہی گزرے نہ رات خوشیوں کی
یوں ہی گزرے نہ رات خوشیوں کی
کچھ تو کر ہم سے بات خوشیوں کی
تھام لو تم خوشی کے دامن کو
مختصر ہے حیات خوشیوں کی
چھوڑ کر غم کے تذکرے سارے
آؤ چھیڑیں گے بات خوشیوں کی
غم نہ آئے تمہاری قسمت میں
گر نکالو زکوٰۃ خوشیوں کی
میں نے اپنوں پہ اعتماد کیا
لٹ گئی کائنات خوشیوں کی
جینا سیکھو ہر ایک لمحے کو
غم لگائے ہیں گھات خوشیوں کی
حق پسندی ہے بس متاع حیات
ہے یہی کائنات خوشیوں کی
جا کے فاراں پہ دیکھنا حسانؔ
اک حسیں کائنات خوشیوں کی