بیکسی میں جو یاد گھر آیا

بیکسی میں جو یاد گھر آیا
آنکھ کے ساتھ دل بھی بھر آیا


میری منزل نہ تیرا گھر آیا
میرے حصے میں بس سفر آیا


اک پری وش خیال پر آیا
ایک سایہ سا مجھ میں در آیا


میں نے بیعت سے کر دیا انکار
اب کے نیزے پہ میرا سر آیا


زندگی جب زوال پر آئی
فن مرا تب عروج پر آیا


خون دل سے ادھر غزل لکھی
نقش تیرا ادھر ابھر آیا


شیش محلوں کے بھی مقدر میں
آخرش دیکھیے کھنڈر آیا


خود کلامی مسیح جان بنی
کوئی مونس نہ چارہ گر آیا


ایک بس دل ہی تھا مرا اپنا
جو ترے راستے میں دھر آیا


کب ملا مجھ کو سنگ میل ترا
میں ہر اک راہ سے گزر آیا


در تھا امید کا کھلا حسانؔ
صبح کا بھولا شام گھر آیا