بسائیں کتنی بھی ہم بستیاں خلاؤں میں

بسائیں کتنی بھی ہم بستیاں خلاؤں میں
اٹھے ہیں خاک سے رہنا تو ہے سرابوں میں


ہمیں نہ بور کرو صاحب ادا کہہ کر
رہے ہیں ہم تو ہمیشہ ہی کج اداؤں میں


نہ دھوپ مجھ کو گوارہ نہ چاند کی خوشبو
مرا وجود بکھرتا نہ یوں ہواؤں میں


دکھائی مجھ کو دیا تھا وہ چاند سا چہرہ
ستارہ آنکھیں مگر کھو گئیں کتابوں میں


وہ لخت لخت تو اترا تھا خون میں ایرجؔ
میں اس کی کھوج میں ہوں اپنے ہم‌ نواؤں میں