یہ ان سے ملتی ہے مبتلا نئیں

یہ ان سے ملتی ہے مبتلا نئیں
ہوا درختوں کی داشتہ نئیں


وفا کا سن کر ملال مت کر
یہ پیشکش ہے مطالبہ نئیں


یقین سے عشق ہو رہا ہے
کسی کو فکری مغالطہ نئیں


فسردہ لوگوں پہ ہنسنے والو
یہ بد تمیزی کی انتہا نئیں


نظر نظر سے سخن کرے گی
یہ لب کشائی کا مرحلہ نئیں


میں چل پڑوں گا کسی بھی لمحے
تھکا ہوا ہوں شکستہ پا نئیں


یہ ہجر ہے اپنے ساتھ رہنا
یہ وقت خود سے گریز کا نئیں


مجھے بہت دیکھتی ہے دنیا
مگر میں دنیا کو دیکھتا نئیں