ہمیں یہ راز سبھی کو بتانا ہوتا ہے
ہمیں یہ راز سبھی کو بتانا ہوتا ہے
نئے کے بعد ہی کوئی پرانا ہوتا ہے
بلا جواز نہیں بولتا ہوں دیر تلک
کہ میں نے بات کو آگے بڑھانا ہوتا ہے
یوں ہی نہیں مری آنکھوں میں اشک لہراتے
کہ ہر کسی نے مرا دل دکھانا ہوتا ہے
یہ منصفین کسی کو بھی حق نہیں دیتے
خدا کا فیصلہ ہی منصفانہ ہوتا ہے
یہ دشت والے میاں ہجر گنگناتے ہیں
ہر ایک خطے کا قومی ترانہ ہوتا ہے
کسی کو دے دی ہے تحفے میں یوسفی کی کتاب
کہ ہم نے کونسا اب مسکرانا ہوتا ہے
ہماری بات وگرنہ کوئی نہیں سنتا
لہٰذا شور تو ہم نے مچانا ہوتا ہے