یہ ساری باتیں چاہت کی یوں ہی کرتا رہوں گا

یہ ساری باتیں چاہت کی یوں ہی کرتا رہوں گا
محبت میں مگر کچھ کچھ کمی کرتا رہوں گا


مری نظروں میں ہے جغرافیہ اس کے بدن کا
تصور باندھ لوں گا شاعری کرتا رہوں گا


ملے گا جب تلک مجھ کو نہ وہ جان تمنا
میں سب کاموں کو اپنے ملتوی کرتا رہوں گا


ملوں جس سے خفا دو دن میں کر دیتا ہوں اس کو
میں آخر تا کجا یہ ابلہی کرتا رہوں گا


تو اپنا دل نہ چھوٹا کر لہو ہے تن میں جب تک
میں روز و شب تری کھیتی ہری کرتا رہوں گا


کوئی آئے نہ کھولوں گا میں اب دروازۂ دل
سنوں گا دستکیں اور ان سنی کرتا رہوں گا


جنوں میں کر کے کچھ اس کو دکھانا بھی تو ہوگا
میں کب تک اس سے وعدے کاغذی کرتا رہوں گا


بجز کار ہنر میں کر بھی کیا سکتا ہوں نجمیؔ
یہی کرتا رہا ہوں اور یہی کرتا رہوں گا