ترا غم ہے تو یہ جذبوں کی رو میں بہہ نہیں سکتا
ترا غم ہے تو یہ جذبوں کی رو میں بہہ نہیں سکتا
کسی کے حق میں میرا دل غلط کچھ کہہ نہیں سکتا
ہوا اچھی ہے اس کی اور نہ پانی اس کا اچھا ہے
میں اس شہر منافق میں تو اک دن رہ نہیں سکتا
یہ شہر دل نہیں بستی ہے یہ فتویٰ فروشوں کی
یہاں اپنے خدا کو میں خدا بھی کہہ نہیں سکتا
زمیں سورج کے چاروں سمت گردش اب بھی کرتی ہے
یہ سچ ہے پھر بھی میں اپنی زباں سے کہہ نہیں سکتا
پلٹ کر اک نہ اک دن اپنی فطرت پر وہ آئے گا
وہ کٹ کر اپنے محور سے ہمیشہ رہ نہیں سکتا
میں انساں ہوں مری فطرت زمینی ہے میاں نجمیؔ
بہت دن تک سر بام فلک میں رہ نہیں سکتا