ہجرت
وہ پتھروں کے قبیلے کی ریشمی لڑکی
روایتوں کی فصیلوں میں خود کو قید کئے
فریب ذات کی اک خوش نما حویلی میں
اکیلے پن کی کتھا سن رہی تھی پھولوں سے
اور اپنے آپ کو بہلائے تھی پرندوں سے
کہ اس کی روح کی وادی میں اک ہرن جذبہ
قلانچیں بھرتا ہوا کھائیوں میں دوڑ گیا
یہ پتھروں کے قبیلے کی شاہزادی بھی
ہر اعتماد کی زنجیر توڑ کر نکلی
تلاش کرتی ہوئی اپنا وہ ہرن جذبہ
دکھوں کی جھیل کنارے اداس آ بیٹھی
وہ خار کھینچ رہی تھی انا کے تلووں سے
کنول ہتھیلیاں چھل کر گلاب ہونے لگیں
شکن شکن تھا خیالوں کا پیرہن سارا
لہو لہو تھا تمناؤں کا بدن سارا
گلابی عمر کے موسم میں گھر سے نکلی تھی
وہ پتھروں کے قبیلے کی ریشمی لڑکی
محبتوں کے قبیلے میں آن پہنچی تھی