یہ مانا کہ ہستی نہیں جاودانی
یہ مانا کہ ہستی نہیں جاودانی
محبت ہے لیکن مری غیر فانی
زباں کھل نہ پائی تو دل کی کہانی
سناتے رہے آنسوؤں کی زبانی
مرے اشک دامن سے اپنے نہ پونچھو
تھمے گی نہ اشکوں کی پھر یہ روانی
شکایت نہیں ہے بھلا دے اگر تو
نہ آ یاد مجھ کو بڑی مہربانی
دل زار کی تو نے فریاد آخر
نہ مانی مری بات تو نے نہ مانی
گناہوں کے قابل نہ طفلی نہ پیری
نہ توبہ پہ مائل ہے اپنی جوانی
ملا ان کو جلوہ جو ہوش اپنے کھوئے
ملی ہوشمندی کو بس لن ترانی
نظر اٹھ رہی ہے ادھر گاہے گاہے
زباں بن رہی ہے مری بے زبانی
گنہ گار ہیں شیخ بچپن سے شاید
گزرتی ہے توبہ میں ان کی جوانی
کہانی کہیں بن گئی ہے حقیقت
حقیقت کہیں بن گئی ہے کہانی
مرے حال پر مہربانی نہ کیجے
یہی آپ کی ہے بڑی مہربانی
مرے نام پر ختم کر دی ہے عامرؔ
وفاؤں کی چھیڑی ہے جس نے کہانی