کرب در پردۂ طرب ہے ابھی

کرب در پردۂ طرب ہے ابھی
مسکراہٹ بھی زیر لب ہے ابھی


ہیں پریشاں حیات کے گیسو
نہ کرو ذکر صبح شب ہے ابھی


مل تو سکتا ہے آدمی میں خدا
آدمی آدمی ہی کب ہے ابھی


لاکھ سمجھوتے حال سے کیجئے
تھی غضب یاد اک غضب ہے ابھی


کس قدر کامیاب ہے انساں
بھوک ہی موت کا سبب ہے ابھی


زندگی تشنگی میں تھی سرشار
ہو کے سرشار تشنہ لب ہے ابھی


بزم امکاں ہے جزو فکر و نظر
عقل کل عقل بو العجب ہے ابھی


اک ہوس ہے کہ قہقہہ پرواز
اک محبت کہ جاں بہ لب ہے ابھی


مٹ گئے فاصلے خلاؤں کے
رنگ ہے نسل ہے نسب ہے ابھی


خود نمائی کے وہم کا ابہام
نام کے ساتھ اک لقب ہے ابھی


تل رہی ہے حیات ہاتھوں پر
فاعلن فاعلن ادب ہے ابھی


سب جو پایا ہے آج کچھ بھی نہیں
کچھ جو کھویا تھا کل وہ سب ہے ابھی


گھر کے ٹکسال کی مشینوں میں
دل کا وہ شور وہ شغب ہے ابھی


ہر نظر اک سوال ہے عامرؔ
ہر نفس فیصلہ طلب ہے ابھی