ہم کنارا کئے کناروں سے
ہم کنارا کئے کناروں سے
کھیلا کرتے ہیں منجدھاروں سے
ہم گزرتے ہیں کھیلتے ہنستے
شعلہ زاروں سے خارزاروں سے
نام پاتے ہیں ناصح بے نام
ہم سے بدنام بادہ خواروں سے
تف بہ مطلب براری یاراں
اف یہ اطوار خاکساروں سے
جن کے دل میں گلوں کی چاہت ہے
پہلے وہ سرخ رو ہوں خاروں سے
دل کی راہوں میں بو لیے کانٹے
کر کے امید گلعذاروں سے
یوں ہے جنبش میں پھول کی ڈالی
وہ بلاتے ہیں جوں اشاروں سے
یوں تو مہ وش ہزار دیکھے ہیں
تم جدا ہو مگر ہزاروں سے
بوالہوس ہے رقیب باطن میں
طور ظاہر میں جاں نثاروں سے
اک فسانہ کہ تھا دیار اپنا
اک حقیقت کہ بے دیاروں سے
تو نے اے دوست ساتھ کیا چھوڑا
دل لرزتا ہے اب سہاروں سے
گرم بازار ہے مرے فن کا
داد پاتا ہوں نقد کاروں سے
روٹھ جائیں نہ وہ کہیں عامرؔ
شعر پڑھیے نہ یوں اشاروں سے