یہ کیسے جانتا گر شہر میں آیا نہیں ہوتا
یہ کیسے جانتا گر شہر میں آیا نہیں ہوتا
یہاں دیوار ہوتی ہے مگر سایہ نہیں ہوتا
رسالت کی بنا گر جھوٹ پر رکھی گئی ہوتی
رسولوں کو بھی تو دنیا نے جھٹلایا نہیں ہوتا
یہ خواب صبح کیا کرتے تمنا کی حنا بندی
اگر تاریخ نے اپنے کو دہرایا نہیں ہوتا
جو امرت چھوڑ کر ہم لوگ بھی وش پان کر لیتے
تو اپنے خون میں یہ سانپ لہرایا نہیں ہوتا
میں اپنے قتل کا اس پر کبھی شک بھی نہیں کرتا
اگر وہ مسکراتے وقت شرمایا نہیں ہوتا
اگر کچھ کام آتی اصطلاح ساغر و مینا
تو میری تشنگی نے مجھ کو بہکایا نہیں ہوتا
جناب میرؔ روتے ہیں تو قیصرؔ شوق سے روئیں
ہمارے عہد میں اب کوئی ہم سایہ نہیں ہوتا