عالم بے چہرگی میں کون کس کا آشنا
عالم بے چہرگی میں کون کس کا آشنا
آج کا ہر لفظ ہے مفہوم سے نا آشنا
کون ہوتا ہے زمانے میں کسی کا آشنا
لوگ ہونا چاہتے ہیں خود زمانہ آشنا
سوچتا ہوں کون سی منزل ہے یہ ادراک کی
ذرہ ذرہ آشنا ہے پتا پتا آشنا
چاٹ جاتی ہے جنہیں سورج کی پیاسی روشنی
کاش ہو جائیں کسی دن وہ بھی دریا آشنا
تشنگی آئی سرابوں سے گزر کر آب تک
ساحل دریا مگر اب تک ہے صحرا آشنا
ذوق خود بینی کی تسکین انا کے واسطے
کتنے ہی نا آشناؤں کو بنایا آشنا
کاش ہو جائے تری آنکھوں پہ خوابوں کا نزول
کاش ہو جائے ترا دل بھی تمنا آشنا
کون پہچانے گا ہم کو کون پوچھے گا مزاج
کون ہے اپنے سوا قیصرؔ ہمارا آشنا