یہ جو مری لے اور لفظوں کے رنگیں تانے بانے ہیں
یہ جو مری لے اور لفظوں کے رنگیں تانے بانے ہیں
سننے والوں غور نہ کرنا سارے راگ پرانے ہیں
سننے والو غور نہ کرنا ورنہ کھل ہی جائیں گے
کتنے خالی بھید ہمارے جو کب سے افسانے ہیں
سننے والوں غور نہ کرنا ورنہ پتہ چل جائے گا
ہم نے جتنے باغ سجائے وہ اب تک ویرانے ہیں
سننے والو غور نہ کرنا ورنہ صاف سمجھ لو گے
ہم نے جتنے نام لیے تھے آج بھی سب انجانے ہیں
سننے والو غور نہ کرنا ورنہ خفا ہو جاؤ گے
جن کو ہم نے دوست کہا ہے ہم ان سے بیگانے ہیں
سننے والو غور نہ کرنا ورنہ ہمیں ٹھکرا دو گے
ہم اندر سے سخت کمینے باہر سے دیوانے ہیں
سننے والو غور نہ کرنا ہم بے سر ہو جائیں گے
جب تک تم سر دھنتے رہو گے سارے گیت سہانے ہیں
سننے والو غور نہ کرنا ورنہ ہم خود کہہ دیں گے
ہم اب شعر نہیں کہہ سکتے یہ سب شعر بہانے ہیں