یہ جو بڑھتی ہوئی جدائی ہے
یہ جو بڑھتی ہوئی جدائی ہے
شاید آغاز بے وفائی ہے
تو نہ بدنام ہو اسی خاطر
ساری دنیا سے آشنائی ہے
کس قدر کش مکش کے بعد کھلا
عشق ہی عشق سے رہائی ہے
شام غم میں تو چاند ہوں اس کا
میرے گھر کیا سمجھ کے آئی ہے
زخم دل بے حجاب ہو کے ابھر
کوئی تقریب رو نمائی ہے
اٹھتا جاتا ہے حوصلوں کا بھرم
اک سہارا شکستہ پائی ہے
جان عالیؔ نہیں پڑی آساں
موت رو رو کے مسکرائی ہے