یہ حقیقت کہ خواب ہے کوئی
یہ حقیقت کہ خواب ہے کوئی
سامنے بے نقاب ہے کوئی
ہے تصور میں حسن دوشیزہ
یا پرانی شراب ہے کوئی
زندگی قید با مشقت ہے
اس سے بڑھ کر عذاب ہے کوئی
بندگی میں تری کفایت کیوں
رحمتوں کا حساب ہے کوئی
جس کو دیکھو رقیبؔ پڑھتا ہے
جیسے چہرہ کتاب ہے کوئی