یہ دور اہل ہوس ہے کرم سے کام نہ لے

یہ دور اہل ہوس ہے کرم سے کام نہ لے
جفا سے کام لے ظالم وفا کا نام نہ لے


گلہ ستم کا نہیں مجھ کو صرف خوف یہ ہے
زمانہ تجھ سے کہیں میرا انتقام نہ لے


زمانہ اس کو مری یاد خود دلا دے گا
وہ لاکھ مجھ کو بھلا دے وہ میرا نام نہ لے


مزہ تو جب ہے کہ اے صبر و ضبط عشق اک دن
وہ خود سلام کرے جو مرا سلام نہ لے


نہ کر ذرا بھی توجہ خطائے دشمن پر
اک انتقام ہے یہ بھی کہ انتقام نہ لے


دل تباہ جو ہونا تھا وہ تو ہو ہی گیا
زمانہ کچھ بھی کہے تو تو ان کا نام نہ لے


وہ کیا نگاہ جو مرہون جام ہی رکھے
وہ ہاتھ کیا ہے جو گرتے ہوؤں کو تھام نہ لے


تری نگاہ سے پی لے جو ایک بار اے دوست
تمام عمر وہ پھر مے کشی کا نام نہ لے


اسی کے در پہ جھکائے رہیں گے سر کو شمیمؔ
یہ دیکھنا ہے وہ کب تک کرم سے کام نہ لے