زمیں پہ رہ کے دماغ آسماں سے ملتا ہے
زمیں پہ رہ کے دماغ آسماں سے ملتا ہے
کبھی یہ سر جو ترے آستاں سے ملتا ہے
اسی زمیں سے اسی آسماں سے ملتا ہے
یہ کون دیتا ہے آخر کہاں سے ملتا ہے
سنا ہے لوٹ لیا ہے کسی کو رہبر نے
یہ واقعہ تو مری داستاں سے ملتا ہے
در حبیب بھی ہے بت کدہ بھی کعبہ بھی
یہ دیکھنا ہے سکوں اب کہاں سے ملتا ہے
طلب نہ ہو تو کسی در سے کچھ نہیں ملتا
اگر طلب ہو تو دونوں جہاں سے ملتا ہے
وہیں چلو وہیں اب ہم بھی ہاتھ پھیلائیں
شمیمؔ سارے جہاں کو جہاں سے ملتا ہے