روشنی لینے چلے تھے اور اندھیرے چھا گئے

روشنی لینے چلے تھے اور اندھیرے چھا گئے
مسکرانے بھی نہ پائے تھے کہ آنسو آ گئے


آج کتنے دوست مجھ کو دیکھ کر کترا گئے
اللہ اللہ اب محبت میں یہ دن بھی آ گئے


جب بھی آیا ہے کسی کو بھول جانے کا خیال
یک بیک آواز آئی لیجئے ہم آ گئے


آہ وہ منزل جو میری غفلتوں سے گم ہوئی
ہائے وہ رہبر جو مجھ کو راہ سے بھٹکا گئے


پھر یہ رہ رہ کر کسی کی یاد تڑپاتی ہے کیوں
اب تو ہم ترک محبت کی قسم بھی کھا گئے


دیکھ کر ان کی نگاہ لطف اک مدت کے بعد
کیا بتائیں کیا خیال آیا کہ آنسو آ گئے


ان کے ہی قدموں کی آہٹ رات بھر آتی رہی
دل کی ہر دھڑکن پہ ہم سمجھے کہ وہ خود آ گئے


اب کوئی دیر و حرم سے بھی صدا آتی نہیں
ہم تری دھن میں خدا جانے کہاں تک آ گئے