یہ بندگی کا سدا اب سماں رہے نہ رہے
یہ بندگی کا سدا اب سماں رہے نہ رہے
سر نیاز جھکے آستاں رہے نہ رہے
ترے خیال میں میں ہوں مرے خیال میں تو
مرے بغیر تری داستاں رہے نہ رہے
کسے خبر ہے کہ ہر غم میں ہے خوشی پنہاں
غم حبیب سلامت یہ جاں رہے نہ رہے
نگہ خموش تکلم کی راز داں ہوگی
حضور دوست یہ گویا زباں رہے نہ رہے
ہماری لاش گلستاں میں دفن کر صیاد
چمن سے دور کوئی نوحہ خواں رہے نہ رہے
وہ مجھ سے اس لئے کہتے ہیں اپنے راز کی بات
کہ میرے بعد کوئی راز داں رہے نہ رہے
صدا انہوں نے انا الحق کی اس لئے دی تھی
سدا دہن میں تمہاری زباں رہے نہ رہے
میں آج اس لئے کرتا ہوں احترام اپنا
ہمیشہ خود پہ تمہارا گماں رہے نہ رہے
اسی کے عشق میں مٹ کر کے ہو گئے واصلؔ
ثبات اسی کو ہے اپنا نشاں رہے نہ رہے