تصورات میں ان کو بلا کے دیکھ لیا
تصورات میں ان کو بلا کے دیکھ لیا
زمانے بھر کی نظر سے چھپا کے دیکھ لیا
فسانۂ غم فرقت سنا کے دیکھ لیا
انہوں نے صرف مجھے مسکرا کے دیکھ لیا
کبھی کسی نے سر طور جا کے دیکھ لیا
کبھی کسی نے کسی کو بلا کے دیکھ لیا
نگاہ پردہ کشا کا کمال کیا کہنا
جہاں جہاں وہ چھپے اس نے جا کے دیکھ لیا
کہا تھا ان کو نہ بلواؤ وہ نہ آئیں گے
ہماری بات نہ مانی بلا کے دیکھ لیا
یہ کس کے واسطے آنسو بہائے جاتے ہیں
تمہیں کسی نے جو اس وقت آ کے دیکھ لیا
کسی نے بھی نہ دیا ساتھ مرنے والے کا
ہر اک رفیق پہ سب کچھ لٹا کے دیکھ لیا
مزاج حسن تو اک حال پر رہا قائم
لٹانے والوں نے سب کچھ لٹا کے دیکھ لیا
خوشی کی بات ہے نکلی تو حسرت دیدار
کرم نواز کو سب کچھ لٹا کے دیکھ لیا
رموز حسن جنوں آشنا رہے ورنہ
خرد پکارتی جلوے خدا کے دیکھ لیا
غرور حسن کی خودداریاں خود آ نہ سکا
شعاع حسن کو مرکز پہ لا کے دیکھ لیا
کبھی نہ تم نے مزاج دل حزیں پوچھا
بس اب معاف کرو آزما کے دیکھ لیا
کہیں ٹھکانا نہیں ہم قفس نصیبوں کا
چمن میں رہ کے نشیمن بنا کے دیکھ لیا
وفا شعار وفاؤں سے باز آ نہ سکے
انہوں نے خواب انہیں آزما کے دیکھ لیا
سوائے آپ کے کوئی نہ بن سکا اپنا
ہر ایک شخص کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
تم آ گئے دم آخر بڑا کیا احساں
خطا معاف جو تم کو بلا کے دیکھ لیا
جو دل سے آئے زباں پر وہ راز راز کہاں
جو راز داں تھے انہیں بھی بتا کے دیکھ لیا
جنازہ دیکھ کے واصلؔ کا ہو گئے بیتاب
کفن انہوں نے بالآخر ہٹا کے دیکھ لیا