یہ اور بات ہے ہر شخص کے گماں میں نہیں
یہ اور بات ہے ہر شخص کے گماں میں نہیں
زمیں کہاں ہے جو آغوش آسماں میں نہیں
ضیا فراز جہاں ہیں ہزار ماہ و نجوم
چراغ کوئی مگر میرے آشیاں میں نہیں
وفور عشق کی نیرنگیاں ارے توبہ
جو دل میں درد ہے وہ دل کی داستاں میں نہیں
تم اپنا تیر ادا میری روح میں ڈھونڈو
ان ابروؤں کی لچکتی ہوئی کماں میں نہیں
یہ اور بات کہ گلشن پہ گر پڑے بجلی
کمی تو کوشش تنظیم گلستاں میں نہیں
جو اپنی سست روی کا علاج کر نہ سکے
مقام اس کا کوئی اہل کارواں میں نہیں
رموز عقبیٰ سے اہل زمیں ہوں کیا واقف
کسی بھی پہلو کوئی ربط دو جہاں میں نہیں
فلکؔ میں کیفیت دل سے خود پریشاں ہوں
کسی فغاں میں اثر ہے کسی فغاں میں نہیں