یقین سے یادوں کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا

تم نے جو پھول مجھے رخصت ہوتے وقت دیا تھا
وہ نظم میں نے تمہاری یادوں کے ساتھ لفافے میں بند کر کے رکھ دی تھی
آج دنوں بعد بہت اکیلے میں اسے کھول کر دیکھا ہے
پھول کی نو پنکھڑیاں ہیں
نظم کے نو مصرعے
یادیں بھی کیسی عجیب ہوتی ہیں
پہلی پنکھڑی یاد دلاتی ہے اس لمحے کی جب میں نے
پہلی بار تمہیں بھری محفل میں اپنی طرف مسلسل تکتے ہوئے دیکھ لیا تھا
دوسری پنکھڑی جب ہم پہلی بار ایک دوسرے کو کچھ کہے بغیر
بس یوں ہی جان بوجھ کر نظر بچاتے ہوئے ایک راہداری سے گزر گئے تھے
پھر تیسری بار جب ہم اچانک ایک موڑ پر کہیں ملے
اور ہم نے بہت ساری باتیں کیں اور بہت سارے برس
ایک ساتھ پل میں گزار دئے
اور چوتھی بار اب میں بھولنے لگا ہوں
بہت دنوں سے ٹھہری ہوئی اداسی کی وجہ سے شاید
کچھ لوگ کہتے ہیں اداسی تنہائی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے
ممکن ہے ٹھیک کہتے ہوں
کچھ لوگ کہتے ہیں بہت تنہا رہنا بھی اداسی کا سبب بن جاتا ہے
ممکن ہے یہ بھی ٹھیک ہو
ممکن ہے تم آؤ تو بھولی ہوئی ساری باتیں پھر سے یاد آ جائیں
ممکن ہے تم آؤ تو وہ باتیں بھی میں بھول چکا ہوں جو ابھی مجھے یاد ہیں
یادوں کے بارے میں اور اداسی کے بارے میں اور تنہائی کے بارے میں
کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی