یقین ہے نہ گماں ہے ذرا سنبھل کے چلو

یقین ہے نہ گماں ہے ذرا سنبھل کے چلو
عجیب رنگ جہاں ہے ذرا سنبھل کے چلو


سلگتے خوابوں کی بستی ہے رہ گزار حیات
یہاں دھواں ہی دھواں ہے ذرا سنبھل کے چلو


روش روش ہے گزر گاہ نکہت برباد
کلی کلی نگراں ہے ذرا سنبھل کے چلو


جو زخم دے کے گئی ہے ابھی نسیم سحر
سکوت گل سے عیاں ہے ذرا سنبھل کے چلو


خرام ناز مبارک تمہیں مگر یہ دل
متاع شیشہ گراں ہے ذرا سنبھل کے چلو


سراغ‌ حشر نہ پا جائیں دیکھنے والے
ہجوم دیدہ وراں ہے ذرا سنبھل کے چلو


یہاں زمین بھی قدموں کے ساتھ چلتی ہے
یہ عالم گزراں ہے ذرا سنبھل کے چلو