آنکھوں میں جو ایک خواب سا ہے
آنکھوں میں جو ایک خواب سا ہے
عالم کیا کیا دکھا رہا ہے
عالم اک انتظار کا ہے
کھلتا نہیں انتظار کیا ہے
قطرہ قطرہ جو پی چکا ہے
دریا دریا پکارتا ہے
کیا کہہ گئی زندگی کی آہٹ
جو ہے کسی سوچ میں کھڑا ہے
اے موج نسیم صبح گاہی
ہر غنچہ کا دل دھڑک رہا ہے
تم اور ذرا قریب آ جاؤ
خنجر رگ جاں تک آ گیا ہے
ہے دیدنی رنگ روئے قاتل
ہر زخم جواب مانگتا ہے
اے دشت جنوں گواہ رہنا
کانٹے ہیں اور اک برہنہ پا ہے
آثار اچھے نہیں شب ہجر
دل کو کچھ قرار سا ہے
لفظوں کو زبان مل رہی ہے
شاید اخترؔ غزل سرا ہے