یہی ارمان یہی شوق ہے دیوانے کا
یہی ارمان یہی شوق ہے دیوانے کا
رنگ پھیکا نہ پڑے عشق کے افسانے کا
بادہ خواروں کو ترے ہوش ابھی باقی ہے
دور چلتا رہے ساقی یوں ہی پیمانے کا
بحر الفت سے ہوا پار سفینہ میرا
قصد جب کر لیا طوفان سے ٹکرانے کا
بجلیاں غم کی گریں خرمن دل پر میرے
سلسلہ ختم ہوا آپ سے یارانے کا
منظر بادہ کشی یوں تو بہت دیکھا ہے
رنگ کچھ اور ہے ساقی ترے میخانے کا
میری الفت کا یقین ان کو نہ آئے لیکن
شکوہ ہرگز نہ کروں گا کبھی جھٹلانے کا
ایک سجدہ میں محبت کے جبیں پر اپنی
کھینچ لایا ہوں میں نقشہ ترے کاشانے کا
اس کے رستے میں رقیبوں نے بچھائے کانٹے
وعدہ اس بت نے کیا جب بھی کبھی آنے کا
قیس و فرہاد کے قصے بھی سنے ہیں لیکن
ڈھنگ کچھ اور ہے احمرؔ تیرے افسانے کا