کیا کہوں کس سے کہوں کہنے کا کچھ حاصل نہیں
کیا کہوں کس سے کہوں کہنے کا کچھ حاصل نہیں
جب سے دیکھا ہے انہیں قابو میں میرا دل نہیں
لطف کیا پینے کا آئے گا بھلا اے مے کشو
مے تو ہے موجود لیکن ساقئ محفل نہیں
تیرے آنے سے وہ کیا محفوظ ہو اے فصل گل
جس کو دنیا میں میسر ہی سکون دل نہیں
میری گردن پر چھری یہ کہہ کر اس نے پھیر دی
مجرم الفت کبھی بھی رحم کے قابل نہیں
میں نے کس کس سے نہیں پوچھا پتا تیرا اے دوست
عمر بھر ڈھونڈا مگر مجھ کو ملی منزل نہیں
حور جنت کی تمنا دل میں رکھتے ہیں مگر
شیخ جی کا قول ہے الفت کا میں قائل نہیں
جتنا تم چاہو کرو ظلم و ستم مجھ پر مگر
منحرف ہو جائے تم سے ایسا میرا دل نہیں
مجھ کو بھی ساغر ملے اے ساقیٔ رنگین ادا
مجھ پہ بھی چشم کرم ہو کیا میں اس قابل نہیں
بھولنے والے فقط اتنا بتانا ہے تجھے
تیرا احمرؔ یاد سے تیری کبھی غافل نہیں