تیری خاطر اے دل بیتاب ہیں برباد ہم
تیری خاطر اے دل بیتاب ہیں برباد ہم
پھر رہے ہیں مارے مارے چار سو ناشاد ہم
جا کے بزم یار میں خود ہی ہوئے ہیں جب اسیر
کس طرح لائیں زباں پر شکوۂ بیداد ہم
جس کی خاطر اہل دنیا کی نگاہوں سے گرے
خون دل سے لکھ رہے ہیں آج وہ روداد ہم
آج تک جس نے کسی پر رحم کھایا ہی نہیں
اس پہ ہوتا کیا اثر کرتے بھی جو فریاد ہم
اک نہ اک دن پنجۂ صیاد میں آنا ہی تھا
رہتے کیسے گلستاں میں اس طرح آزاد ہم
ہر طرف پھیلا ہوا ہے جب ترا دام فریب
تا بہ کے بچتے ترے پھندوں سے اے صیاد ہم
گلستاں بھر تھا مگر اس شاخ پر بجلی گری
رکھ رہے تھے آشیاں کی جس جگہ بنیاد ہم
بن گیا ہے بنتے بنتے اک مزاج مستقل
دل دھڑکتا ہے تجھے کرتے ہیں جب بھی یاد ہم
قتل گہہ میں پوچھتا ہے اے ستم گر حال دل
ذبح کر دے کہ کہیں گے کچھ نہ اب جلاد ہم
بے وفا بیداد گر سے ملنے کی اب ضد نہ کر
اس کی محفل میں نہ جائیں گے دل ناشاد ہم
کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا ہے احمرؔ اس کا بھید
ایک ظالم کے لئے کیوں ہو گئے برباد ہم