یہاں تک کام آیا جذبۂ ضبط فغاں اپنا

یہاں تک کام آیا جذبۂ ضبط فغاں اپنا
کھڑے دیکھا کئے جلتے ہوئے ہم آشیاں اپنا


حقیقت میں وہی ہے حاصل عمر رواں اپنا
جسے سب موت کہتے ہیں وہ ہے خواب گراں اپنا


بہت کچھ ہو چکا طے جادۂ عمر رواں اپنا
پہنچ جائے گا منزل پر کسی دن کارواں اپنا


جہاں میں موت نے الٹی نقاب زندگی جس دم
یقیں سے خود بدلنا ہی پڑا آخر گماں اپنا


یہیں کشت تمنا ہے یہیں ہے مزرع عقبیٰ
اسی دو دن کی دنیا میں ہے سارا امتحاں اپنا


نہیں جب کوئی دھبہ دامن اسلاف پہ اپنے
تو پھر اچھے سے اچھا کیوں نہ ہوگا دود‌ ماں اپنا


نشان قبر بھی ڈھونڈھے سے اب ملتا نہیں شعلہؔ
مٹا ہے صفحۂ ہستی سے یوں نام و نشاں اپنا